Believes in this Islam and the cornerstone of all its efforts is to attain the pleasure of Allah and succeed in the hereafter. Sincerity in all the acts viz. purification of self, reforming the society, establishing social justice etc. is the only prerequisite for their acceptance in the eyes of Allah.

جب کسی انسان کا معدہ خراب ہوجاتا ہے تو اس کو اچھی غذا پسند نہیں آتی جب کسی قوم کا مزاج بگڑجاتا ہے تو اس کو خود اپنی بھلائی کی بات بھی...


جب کسی انسان کا معدہ خراب ہوجاتا ہے تو اس کو اچھی غذا پسند نہیں آتی جب کسی قوم کا مزاج بگڑجاتا ہے تو اس کو خود اپنی بھلائی کی بات بھی اچھی نہیں لگتی ۔انسانی فطرت ہی کچھ ایسی رہی ہے کہ جب کوئی قوم مسلسل کسی راستے پر چلتی رہتی ہے تو وہ اسی کی عادی اور اسی کی خوگر ہوجاتی ہے وہی اس کا مزاج بنجاتا ہے اور وہی اس کی فطرت میں ڈھل جاتا ہے اگرچہ وہ راستہ کتنا ہی تنگ اور غیر معقول ہو کتنا ہی پرخطر اور ہلاکت خیز ہو اور کتنا ہی ذلت اور رسوائی کی غلاظتوں سے پر اور متعفن ہو ۔ہزار دلائل سے اس راہ کی ضلالت و مضرت کو ثابت کردیجئے مگر کوئی دلیل اور کوئی حجت اس کےفکر و ذہن کو اپیل نہیں کرسکتی ۔ اس کے نزدیک اس راستے کی صحت و صواب کےلئے یہی دلیل کافی ہے کہ اس نے اس راستہ پر اپنے خود ساختہ مقتداوں اور پیشواؤں کو چلتے دیکھا ہے ۔ پھر اس کو اس راہ سے ہٹانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔ ہزار ٹھوکریں کھاکر اور ذلت اور رسوائی کے ہزار مراحل سے گزر کر بھی وہ اسی راستے پر چلتی رہتی ہے اور کسی صورت اس کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی اس کو ہر دوسرا راستہ خواہ وہ کتنا ہی فطرت سے ہم آہنگ اور عقل کے قریب ہو اور کتنا ہی صاف سیدھا اور محفوظ تر ہو ایک اجنبی اور غیر مانوس راستہ معلوم ہوتا ہے ۔ایسے حالات میں جب بھی کوئی خدا کا بندہ اس بھٹکی ہوئی قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کےلئے اٹھا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کو اجنبی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے بلکہ اس کو اپنی قوم کی طرف سے شدید مزاحمت اور سخت منفی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
فرعون نے پوری قوم کو اپنا غلام بنا رکھا تھا خود کو خدا کہلواتا تھا ،موسی علیہ السلام قوم کو فرعون کی غلامی اور اس کے مظالم سے نجات دلاکر ایک خدا کی بندگی (مکمل انسانی آزادی) اور دائمی خیرو فلاح کی طرف بلارہے تھے مگر فرعون کے ظلم کی چکی میں پس رہی قوم نے موسی علیہ السلام کے ذریعہ دئیے جانے والے آزادی کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کردیا جبکہ یہ عین اس کی فطرت کی آواز تھی ۔کیوں کہ اب وہ غلامی کے رنگ میں پوری طرح رنگ چکی تھی اور اب اس کے اندر غلامی کے سوا کسی دوسری بات کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی تھی ۔
اہل مکہ اپنی تمام تر معاشرتی خرابیوں کے باوجود ایک آزاد فطرت اور خوددار قوم تھے مگر ایک طویل عرصہ سے شرک کے راستے پر چلتے چلتے وہ اصنام پرستی (مخلوق کی غلامی) کے ایسے خوگر ہوچکے تھے کہ اب ان کا ضمیر اس کے خلاف کوئی بات سننے اور ماننے پر آمادہ نہ تھا ۔ پیغمر انقلاب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو ایک بڑے اور دائمی خطرہ (آخرت کے عذاب) سے آگاہ کیا اور ان کو شرک کے راستے کو چھوڑ کر توحید کی طرف آنے کی دعوت دی تو عین فطرت انسانی سے ہم آہنگ نبی کی اس صدا پر اہل مکہ کا رد عمل بالکل غیر فطری اور غیر انسانی تھا ۔۔ چنانچہ انہوں کہا ۔ تبا لک یا محمد الھذا جمعتنا ۔ تیرا ناس ہو اے محمد ( نعوذ باللہ)کیا تونے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا ۔ پیغمر کی یہ آواز ان کے لئے ایک اجنبی اور غیر مانوس آواز تھی ۔ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا ۔۔ اجعل الالہتہ الہ واحدا ان لشیء عجاب * وانطلق الملء منھم ان امشوا واصبروا علی آلہتکم ان ھذا لشیء یراد * ؛؛ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ یہ شخص تمام خداوں سے ہٹاکر ایک ہی خدا پر جمع کرنا چاہتا ہے ۔ اور ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ چلو اپنے اپنے معبودوں پر جمے رہو یہ تو کوئی منظم اور سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے ۔ انسانی تاریخ میں دنیا کی غلام قوموں کا ہمیشہ یہی طرز عمل دیکھنے کو ملتا ہے ۔
ہندوستان پر صدیوں تک فرمانروائی کرنے والی مسلمان قوم بھی ایک زندہ اور غیرت مند قوم تھی مگر دوسو سال کی پہہم غلامی نےاس کے دل و دماغ اور فکر و ضمیر پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے اور اب اس کا مزاج اس قدر بگڑ چکا ہے اور اس کا ضمیر اس قدر مضمحل ہوچکا ہے کہ کفر کی جس غلامی سے نجات کے لئے اس کےاسلاف نے دو صدیوں تک انگریز کے خلاف شدید جنگ لڑی تھی اور باطل کے جس نظام سے چھٹکارے کےلئے انہوں نے جان و مال کی بے مثال قربانیاں دی تھیں آج یہ قوم اسی کفر کی غلامی پر فخر کررہی ہے اور باطل کے اسی نظام کی محکومیت کو آزادیٔ اسلام کا نام دے رہی ہے ۔اب جمہوریت پر اس کا کامل ایمان ہے اب سیکولرازم اس کا پختہ عقیدہ ہے اب خلافت اسلامیہ کا نظریہ اس کے نزدیک ایک باطل نظریہ ہے اب اسلامی نظام اس کے نزدیک ایک ناپسندیدہ نظام ہے ۔اب اظہار علی الدین کلہ ۔ کے کوئی حقیقی معنی نہیں اب سورہ انفال  اور سورہ توبہ کی کوئی عملی تفسیر نہیں ۔ اب تجارت و معیشت کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ۔ اب سیاست و حکومت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔اب اسلام کا ہر وہ حکم جو اس کی ہم وطن غیر مسلم اقوام کی طبیعتوں کو ناپسند اور گراں بار ہو اس کے نزدیک منسوخ ہوچکا ہے اور اب اس کا نام لینا بھی اس کے نزدیک کسی جرم سے کم نہیں ہے ۔۔
یہ اس قوم کی صورت حال ہے جس نے بحیثیت مسلمان اس ملک پر قریب آٹھ سو برس تک حکمرانی کی ہے اور آج اس کے طرز حیات کو سامنے رکھ کر اسلام کی تھوڑی بھی فہم رکھنے والا ایک شخص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آج یہ قوم اپنے کردار و عمل سے جس اسلام کی ترجمانی کررہی ہے کیا یہ وہی اسلام ہے جو قرآن و سنت کی شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکر گئے ہیں ،کیا یہ وہی اسلام ہے جو صحابہ تابعین تبع تابعین اکابر امت اور اس کے اسلاف کے ذریعہ اس تک پہنچا ہے ؟اس قوم کے حالات زندگی کو سامنے رکھ کر تاریخ آزادی ہند کا مطالعہ کرنے والا ایک شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے ،کہ کیا یہی وہ آزادی ہے جس کے حصول کی خاطر ہمارے اسلاف نے انگریز کے خلاف قریب دوسو سال تک جنگ لڑی تھی ؟؟وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہاہے کہ آخر انگریز کی غلامی اور موجودہ آزادی کے درمیان وہ کونسی امتیازی حدود تھیں جنہیں ڈھانے کےلئے ہمارے اکابر نے سخت ترین جدوجہد کی تھی اور قید و بند کی ہولناک صعوبتیں برداشت کی تھیں ؟؟وہ سمجھ ہی نہیں پارہا ہے کہ آخر وہ کیا مقاصد تھے کہ جن کے حصول کی خاطر ان بزرگوں نے انگریز کے خلاف ٹکراو اور تصادم کی راہ اختیار کی تھی اور بے شمار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔اس کے ذہن کے اندر یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ جن مقاصد کے لئے جنگ آزادی لڑی گئی تھی وہ کس حد تک حاصل ہوئے ؟؟ یا پھر وہ حاصل ہوئے بھی یا نہیں ؟ وہ تشکیک کا شکار ہے کہ اس کے بزرگوں کا انگریز کے خلاف جنگ و جدل کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ؟
جس انسان کے فکر و ذہن کے اندر زندگی کی کوئی حرارت موجود ہے اس کے لئے یقینا یہ زندہ سوالات ہوسکتے ہیں ۔مگر اب اس زوال یافتہ اور محکوم قوم کے نزدیک ان سوالات کی کوئی اہمیت نہیں ۔اب اسلاف کی تابناک تاریخ میں اس کے لئے روشنی کی کوئی کرن موجود نہیں ۔ اب اس کے بزرگوں کی وہ عظیم تاریخ اس کے لئے ایک داستان پارینہ بن چکی ہے ۔ اب ان سوالات پر گفتگو کرنے والا گنہگار ہے اب اسلاف کی سیرت پر بات کرنے والا مجرم ہے ۔اب غلامی کے مزاج میں پختہ تر کردینے والے نام نہاد رہنما اس کے پسندیدہ ہیرو ہیں اب غلامی کے پنجرے میں قومی تعمیر کی باتیں کرنے والے خودساختہ قائدین اس کے محبوب ترین مسیحا ہیں ۔یہ ہے ملت اسلامیہ ہند کی وہ نازک صورتحال جس میں بڑے بڑے ارباب علم و دانش اور بڑے بڑے اصحاب فکر و فہم بھی میدان عمل میں اتر نے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسے نازک حالات میں کیا کرسکتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئیے ۔تو ہمیں سب سے پہلے اس کائنات میں بکھرے ہوئے ان پوشیدہ امکانات پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے جو ہر عسر میں یسر کی طرف رہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں ۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور فساد میں ہمیشہ کچھ ایسے سلیم الفطرت افراد پائے جاتے رہے ہیں جن کے اندر حق اور سچائی کو جاننے سمجھنے اور اس کو قبول کرنے صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔یہی نفوس صالحہ اپنے وجود سے تاریکیوں کے پردوں کو چاک کرتے ہیں اور کسی نئی صبح کی نوید ثابت ہوتے ہیں ۔اور گاہے گاہے سہی لیکن بہرحال اس امت کےاندر بھی ابھی ایسے پاک طینت اور صالح طبیعت افراد موجود ہیں جو اس قوم کے موجودہ حالات پر فکر مند ہیں اور جن کے سینے کے اندر ایک کڑھن اور ایک بےچینی کا احساس پایا جاتا ہے ۔ہم انہیں منتشر نفوس کو آواز دینا چاہتے ہیں کہ وہ خدا کی ذات پر توکل اور بھروسہ کرکے پردہ خفا سے باہر آئیں ۔ باہم مربوط ہوں ۔ ایک جگہ جمع ہوں ۔ حالات کے اشارات اور مضمرات کو سمجھیں ۔ اور ملت کی تعمیر نو کے لئے کوئی صحیح اور موثر لائحہ عمل طے کریں کہ یہی حالات کا تقاضا اور یہی وقت کی پکار ہے ۔

تحریر
 محمد ہارون قاسمی ، (بلند شہر )
فون ، 9412658062

#MillatAwareness #WahdatVision #Ittehad #MuslimsInIndia #TrueIslam #WV11

قابل احترام بھائیو ں اوربہنوں! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ امید کے مزاجِ گرامی بخیر ہوگا۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے سرگرم ...


قابل احترام بھائیو ں اوربہنوں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
امید کے مزاجِ گرامی بخیر ہوگا۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہوں گے۔
 رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے جا رہا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ شعبان سے ہی اس کی تیاری کا آغاز فرماتے تھے اور لوگوں کو بیدار کرتے تھے۔ اس مہینہ سے استفادہ کے لئے آپ ﷺ کی کئی احادیث ہمیں ملتی ہیں۔
امیر محترم (وحدت اسلامی ہند)مولانا عطاء الرحمن وجدی ؔ نے مشاورت کے بعد مندرجہ ذیل امور کی جانب توجہ دلائی ہے، جو رمضان المبارک سے متعلق ہیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوں۔ رمضان المبارک ماہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، جو جامع ہدایت و رہنمائی ہے۔ اللہ سے قربت کا سب سے بہترین ذریعہ اور اس کے ذکر کا آسان طریقہ ہے ۔ اس ماہ تلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام فرمائیں۔ کوشش کریں کہ کم از کم ایک مرتبہ مع ترجمہ مکمل ہو جائے۔
٭ قرآن سے استفادہ کی یوں تو بہت سی شکلیں ہیں جیسے ہفت روزہ دروس، ماہوار اجتماعی مطالعہ قرآن، تجوید و عربی زبان کی کلاسیز۔ لیکن رمضان المبارک میں اسے خاص توجہ و اہتمام سے استفادہ کی ضرورت ہے۔ بالخصوص آخری عشرہ میں اجتماعی مطالعہ کا نظم ہر مقام پر کریں۔ اس بار پورے رمضان میں خصوصی مطالعہ کے لئے ’’سورۃ الحجرات ‘‘  و  ’’سورۃ الحشر‘‘ خاص کی گئی ہے۔ ہر بھائی ؍بہن کی کوشش ہونی چاہئے کہ اس نصابِ رمضان کو مختلف تفاسیر و معتبر علماء کی رہنمائی میں مکمل کر لیں ۔ اجتماعی مطالعہ قرآن کے لئے اس سورۃ میں سے ضرورت و حالات کے پیش نظر آیات کا انتخاب کرلیں۔ جہاں ممکن ہو بعد نمازِ تراویح خلاصہ آیات پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
٭ رمضان المبارک کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے جائیں۔ اس میں راتوں کا اٹھنا اور قیام کرنا بندے کے لئے مغفرت و نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ کوشش کریں کہ قیام لیل کا اہتمام ہو۔ اللہ کے حضور گریہ و زاری ،مناجات و دعاؤں کا ،اپنے لئے، اپنوں کے لئے ،تحریک کے لئے، تحریکاتِ اسلامی کے لئے، اُمت مسلمہ کے لئے ،بالخصوص مظلومین کے لئے خوب اہتمام فرمائیں۔
٭ رمضان المبارک ہمیں دوسروں کی ضروریات کا احساس دلاتا ہے، لیکن انسانوں کی بڑی تعداد ان چیزوں سے محروم زندگی گزارتی ہے۔ ان کا پاس و خیال رکھنا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرناہے۔ کبھی زکوٰۃ کی مد سے تو کبھی انفاق فی سبیل اللہ کی دیگر مدات سے،کبھی میٹھے بول کے ذریعے تو کبھی ہمدردی، حسنِ سلوک کے ذریعے۔ بالخصوص ان لوگوں کو اور ان کے خاندانوں اور رشتے داروں کا خاص خیال رکھیں جنہیں وقت کے نظام نے اسیری و بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔قرآن کریم میں گردنوں کو چھڑانے کی مد کا خاص ذکر کیا ہے۔
٭ امت میں رمضان المبارک سے استفادہ کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے رمضان سے قبل ’’استقبال رمضان‘‘ کے پروگرام کئے جا سکتے ہیں، احادیث پر مبنی ہورڈنگس لگائی جا سکتی ہیں، فولڈر، پمفلٹ وغیرہ تقسیم کئے جا سکتے ہیں جس میں تعلق باللہ، استقامت اور انفاق پر اُمّت کو متوجہ کیا جا سکے۔
٭ ملکی و عالمی تبدیلیوں کے افق سے روز بروز اندیشوں کا ایک طوفان اُمڈ رہا ہے۔ کہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے تو کہیں خوف و مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں تاریخ اسلامی کے روشن ابواب یوم الفرقان (17؍رمضان المبارک) یوم الفتح (فتح مکہ ،20رمضان المبارک) پر خصوصی پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ امّت مظلوم کے اندر ہمت و حوصلوں کی آبیاری ہو سکے۔
٭ ذاتی تربیت کا انتہائی مفید و روحانی طریقہ اعتکاف ہے۔ اس کے لئے پہلے سے وقت فارغ کرکے اس سے استفادہ کریں۔
٭ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ، اذکار مسنونہ، بالخصوص استغفار کی کثرت کو معمول بنائیں۔


والسلام 
ضیاء الدین صدیقی
معتمد عمومی، وحدتِ اسلامی

#MillatAwareness #WahdatVision #Ramzan #Ramadan #RamzanApp #WV10

ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہے۔۲۰۱۹ء کے الیکشن کی اہمیت بہت زیادہ بتا کر مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلایا جارہا ہےاور ان سے کہا جار...


ملک میں الیکشن کی گہما گہمی ہے۔۲۰۱۹ء کے الیکشن کی اہمیت بہت زیادہ بتا کر مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دلایا جارہا ہےاور ان سے کہا جارہا ہے کہ ووٹ ضرور ڈالیں۔سیکولرزم اور جمہوریت کو بچانے کے لیےوہ میدان عمل میں کود پڑیں۔ ووٹ کو ’شہادت‘ کی حیثیت دی جارہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ’شہادت علی الناس‘ کا فریضہ اسی سے ادا ہوجائے گا۔ووٹ دینا ’’بھارت کی اسلامی شریعت ‘‘میں فرض قرار دے دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ووٹ دینا اگر ’شہادت‘ یا’ گواہی‘ ہے تو کس طرح کی گواہی دینےکی بات اسلام کرتا ہے ؛ جھوٹی یا سچی؟ایک طرف تو یہ بات تقریبا ہر کوئی مانتا ہے کہ بھارت میں سارے نیتا کرپٹ ہیں الا ماشاء اللہ اور دوسری طرف ووٹ کو شرعی فریضہ قرار دے کر ان ہی کرپٹ لیڈران کو منتخب کرنے کی بات بھی کی جاتی ہے۔یعنی کرپٹ لوگوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دو لیکن ووٹ ضرور دو۔اب ایک عام مسلمان بھی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ جھوٹے لوگوں کے بارے میں یہ گواہی دینا کہ وہ سچا اور امانت دارآدمی یا نیتا و لیڈرہے ،خود ایک جھوٹی گواہی ہے۔اور اگر ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ سچا یا امانت دار ہے تو جھوٹے یاکرپٹ لوگوں کو منتخب کرکے ہم کیسے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ غیر جانب دارانہ یا منصفانہ سیاست کریں گے؟!!!ہمیں ٹھہر کر سوچنا چاہئے کہ آخر کرپٹ لوگوں کو چُن کرہم بھارتی سیاست کو صحیح رُخ پر کیسے لاسکتے  ہیں؟؟؟ووٹ کو اگر شرعی فریضہ مان بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز اور روزہ یا فرائض میں اس کی حیثیت کچھ کم ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ شرائط اور حدود و قیود بھی ہیں یا ہر طرح کی قید سے آزاد ہوکر ووٹ دینا فرض ہے؟مثلا نماز فرض ہے تو اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں یا جو چاہے جیسے چاہےنماز پڑھ لے۔ پاک ہو یا ناپاک ہو،ساتر ہو یا غیر ساتر ہو، امام مسلم ہو یا کسی کافر کو ہی امام بنا لیاگیا ہو اور جدھر چاہے رخ کرلیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ؟ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہماری شرکت اگر موجودہ اسمبلی یا پارلیامنٹ میں نہیں ہوگی تو ملت اسلامیہ ایک شدید نقصان سے دوچار ہوگی، یہاں تک کہ انہیں اپنے ایمان اور جان، مال ، عزت ،آبرو سب سےہاتھ دھونا پڑے گا؟ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک پارلیامنٹ یا اسمبلی میں جب مسلمان زیادہ تھے تو کیا انہوں نے فسادات کو رکوالیا تھا یا مسلمانوں کے کتنے مسائل حل کردیے تھے۔ ہمیں اس پہلو سے غور کرنا چاہیے کہ قریش کی ’دارالندوہ ‘میں مسلمانوں کی شرکت کے لیے رسول اکرم ﷺ نے کوئی پلاننگ کی تھی کیا؟؟؟ 
ہم کس فرد یا کس پارٹی کو ووٹ دیں ؟  آخر یہ شرعی مسئلہ کیسے ہو سکتاہے؟ جس پر ہمارے علماءفتوے دے رہے ہیں،الیکشن کو فرقہ وارانہ رنگ پکڑنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے جب کہ اس ملک کے ذرے ذرے میں فرقہ پرستی بھری ہوئی ہے ۔کیا اس فرقہ پرستی کی ذمہ دار یہاں کی سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں؟کیاکانگریس یا سماج وادی پارٹی یا دوسری سیاسی پارٹیاں فرقہ وارانہ سیاست نہیں کرتیں ؟بابری مسجد میں تالا لگوانا ، پھر تالاکھلوانےسے لیکر بابری مسجدکی شہادت تک تمام مراحل کو ’سیکولر‘کانگریس نے ہی طے کیا،ٹادااور پوٹاجیسے قوانین (جس کا شکار صرف مسلمان ہوئے )کانگریس کی ہی دَین ہے،مظفر نگر فسادات ’ملا ملائم ‘کی سیکولر دور حکمرانی ہی  کے تحفے ہیں۔ان تمام کے باوجود ان کے سیکولرزم پر کوئی فرق نہیں پڑتا ،ہماری دینی و ملی جماعتیں آج بھی ان کے سیکولرہونے پرایمان رکھتی ہیں۔
کیاصرف ووٹ دے کر مسلمانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے؟مسلم سیاسی پارٹیاں یا افراد Common Minimum Agendaطے کرکے کچھ نکات پر متفق کیسے ہوں؟ایک ہی مقام سے کئی کئی مسلم امیدوار کھڑے نہ ہوں؟آخر ووٹ ڈالنے کا  فتویٰ دینے والے حضرات اس کی کوششیں کیوں نہیں کرتے؟شاید اس لئے نہیں کرتے کیوں کہ فتویٰ دے کر ان کا مقصد کچھ پارٹیوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔عام حالات میں تو ہم سارے انسانوں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیںاور انسانیت انسانیت کی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن الیکشن آتے ہی ہم ہندو مسلم یا بی جے پی و غیر بی جے پی کیوں شروع کردیتے ہیں؟ الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دینے کی وجہ سے ایک محلہ یا شہر میں مسلمان خود اس طرح لڑ پڑتے ہیں جیسے کہ ان کی ازلی دشمنی ہو،آخر ہمارے علماءو دانشوران اس کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ مسلمانوں میں اس طرح کی دشمنی پیدا نہ ہونے پائے۔بعض دفعہ تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ علماءو دانشوران ہی اس نفرت کا حصہ بن جاتے ہیں۔مسلم سیاسی پارٹیاں تو دور مسلم تنظیمیں بھی اس طرح کے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہتی ہیں۔
 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد وجود اور امت مسلمہ کے اصل فرض منصبی سے غافل ہوگئے ہیں ، اسلام کے اصولِ عروج و زوال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں، پاکیزہ اور منصفانہ سیاست کے اصول و مبادی سےہم واقف نہیں ہیں یا کم واقف ہیں۔یاد رکھیے ہم اپنے فرض منصبی ’شہادت علی الناس‘ کو طاق پر رکھ کر دنیا میں کامیابی و کامرانی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتے اور جنت کا حصول تو ناممکن ہے۔ جتنی محنتیں اور طاقتیں ہم اپنےمال و دولت کوبچانے اور بڑھانے کےچکر میں الیکشن میں حصہ لینے یا ووٹ دینے کے لئے صرف کرتے ہیں ۔۔۔کاش ہم اتنی محنت اللہ کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے کر پاتے!!! اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

(زیر نظر مضمون ماہنامہ ’’نقوش راہ ‘‘کے اداریے سے نقل کیا گیا ہے۔)

#MillatAwareness #WahdatVision #MobLynching #WV08

جلال  بادشاہی  ہو  کہ  جمہوری  تماشا  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی  مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘ہونے کا شرف...


جلال  بادشاہی  ہو  کہ  جمہوری  تماشا 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘ہونے کا شرف حاصل ہے ،ہم میں سے کسی نے آج تک اس بات پر غور نہیں کیا کہ صاحب ’’نگارش آزاد ‘‘مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘کیوں کہا جاتا ہے؟ جو کہ سلطنت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد بھی امامت اور جمعیت کے تصور سے اسلام کو دور کیا گیا اور ملت اسلامیہ کو بے امام و بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ،ہماری امامت ‘جمعیت سے پرے ہو کر مسجد کی چہار دیواری میں قید ہو کر رہ گئی اور امامت اور جمعیت ہماری آنکھوں اور شعور سے تحلیل ہو کر رہ گئی جس کی وجہ سے علامہ اقبال کو کہنا پڑا     ؎
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے  سرور
ایسی نماز  سے گزر  ایسے امام  سے گزر
’امام الہند ‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے سلطنت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اس ملک کو آزادی بخشنے کی تحریک چلائی اور ’’تحریک خلافت ‘‘ علم تھام لیا لیکن ترکی کے خاتمے کے سبب انہیں لامحالہ ’’جمہوری نظام ‘‘کا جھنڈا ہاتھ میں تھامنا پڑا، جمہوری نظام اور اسلام کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا کہ ’’خداوند برتر ! مجھے معاف فرما میں ملت اسلامیہ کے کشت و خون کے دریا برداشت نہ کر سکا اور میرے قدموں میں لرزا طاری ہوا اس لیے میں اس جمہوری نظام میں مسلمانوں کے لئے اپنے ایمان و اسلام کے تحفظ کی غرض سے ایک ایسا لائحہ عمل پیش کر رہا ہوں جس میں مسلمانوں کے حیثیت مسلمانی باقی رہے اور اسی دوران میں وہ اپنی امامت اور جمعیت قائم کریں اور دستور ہند کے دائرے میں اپنے سیاہ و سفید کے مالک خود بنیں  اور جونہی جمعیت اس قدر طاقت حاصل کر لے کہ ’’اسلامی نظام حیات ‘‘قائم کرنے کے روشن امکانات نظر آئے تو وہ ’’خروج ‘‘کر لیں۔  اسلامی نظام حیات کے قیام تک اس ملک کا مسلمان اسلامی مسلمان نہیں ہو گا بلکہ جمہوری مسلمان رہے گا حتیٰ کہ خروج کے بعد ہی وہ اسلامی مسلمان ہوگا ، یہ فرق ہے اسلام میں مسلمان اور جمہوری مسلمان کے درمیان !!!
لہذا ابوالکلام آزاد کے ’’کاروان زندگی ‘‘کو جمہوری علماء اور مسلمانوں نے یہیں پر روک کر رکھ دیا اور امامت وجمعیت کو مسجد کی چہاردیواری میں قید کر دیا ۔آج سیاسی پردۂ مجاز میں اسلام کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم پرسنل لاء اور بابری مسجد کے تحفظ کے نام پر بہت کم ہی سہی مگر آواز ضرور اٹھتی ہے تو دوسری جانب آواز اٹھانے والے جمہوری اصولوں کے تحت اسلامی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر قائدین کے مجسموں پر خراج تحسین کے غرض سے پھولوں کا ہار بھی چڑھاتے ہیں ،ٹکٹ کے حصول کی غرض سے نوٹ بھی گنتےہے ،جمہوری نظام میں جاری کرپشن اور رشوت خوری سے پرہیز بھی نہیں ہوتا ہے ،جمہوری سیاست کی تمام غلامانہ خرابی نظر آتی ہے ،ان میں سیاسی مفاد اس قدر غالب آگیا ہے کہ مذہبی حقوق و تحفظ کے نام پر پورے ملک کو یرغمال بنایا جاتا ہے اور اقتدار کے مزے لوٹے جاتے ہیں کہ فرقہ پرست پارٹیوں کے لیڈر بھی شرمسار ہو جائے ۔
لہذا اب سمجھ میں آئی وجہ کے ’امام الہند ‘مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’کاروان زندگی ‘‘کو یہیں پر کیوں روک دیا گیا اور ان کا تذکرہ بحیثیت ’امام الہند ‘کیوں نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ سازش اس بات کی ہے کہ جمہوری مسلمان اور اسلامی مسلمان کے درمیان صراط مستقیم کا خط ہٹا کر ایک خط کھینچا گیا تاکہ اس ملک کے مسلمانوں کو اسلامی مسلمان بننے ہی نہ دیا جائے اور امت کو مسجد کی چہار دیواری سے باہر نہ آنے دیا جائے اور اپنے سیاسی تسکین حاصل کر لی جائے 

شہاب مرزا (اورنگ آباد)
+91 9595 024 421

#MillatAwareness #WahdatVision #MobLynching #WV07

 عراق پر امریکی حملہ 67 ملکوں کو ساتھ لے کر کیا گیا تھا، افغانستان پر حملہ متحدہ ممالک کی افواج نے کیا تھا، شام کو پیٹنے والے اکیلے نہ...


 عراق پر امریکی حملہ 67 ملکوں کو ساتھ لے کر کیا گیا تھا، افغانستان پر حملہ متحدہ ممالک کی افواج نے کیا تھا، شام کو پیٹنے والے اکیلے نہیں بلکہ کئی ممالک کی فوجیں تھی، جواب بھی بچی کچھی نعشوں سے اپنا انتقام لے رہی ہے، مغرب میں اسلاموفوبیا ایک متعدی بیماری کی طرح پھیل رہا ہے اس کی وجہ سے نفرتیں بڑھ رہی ہے، نیوزی لینڈ کا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔
 بھارت میں گودھرا کانڈ ہمیں بتلاتا ہے کہ اطراف کے گاؤں مل کر ایک گاؤں پر حملہ کرتے ھیں، یہی پیٹرن یوپی کے مظفر نگر میں نظر آتا ہےکہ ایک شہر میں اطراف کے محلے مل کر ایک محلے پر حملہ کرتے ہیں اور مل جل کر ایک کمیونٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں، اسی طرح چھوٹے گاؤں کے لوگ مل کر ایک گھر پر حملہ کرتے ہیں اور اپنی بھڑاس نکالتے ہیں، دادری میں محمد اخلاق کے گھر پر حملہ اسی نوعیت کا تھا، یہ پیٹرن اور فوکس ہوکر پہلو خان کے واقعے میں نظر آتا ہے جہاں پندرہ بیس لوگ مل کر ایک آدمی کو مارتے ہیں، دو دن قبل آسام میں 67 سالہ ایک بزرگ کو لوگوں نے مل کر بے دردی سے پیٹا۔عالمی حالات کا اثر بھارت کے شہروں، چھوٹے گاؤں اور دیہات میں بھی نظر آرہا ہے۔ 
ایمان و احتساب، توکل و مزاحمت ، اتحاد و اتفاق سے ہی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
 ضیاء الدین صدیقی
(اورنگ آباد)

#MillatAwareness #WahdatVision #MobLynching #WV06

مسلمانوں کی بھارت آمد سے ہی ایک طبقہ ان سے انتہائی نفرت کرتا رہا ہے۔ آٹھ سو سالوں کی حکومت نے ان کی سیاسی حسد کو دو چند کر دیا ہے۔ غلط...


مسلمانوں کی بھارت آمد سے ہی ایک طبقہ ان سے انتہائی نفرت کرتا رہا ہے۔ آٹھ سو سالوں کی حکومت نے ان کی سیاسی حسد کو دو چند کر دیا ہے۔ غلط قسم کے الزامات، بہتان وغیرہ لگا کر ہمیں بد نام کیا جاتا رہا ہے۔ تاریخی طور پر ان الزامات کی کوئی اہمیت ہی نہیں بلکہ اکثر الزامات جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس نفرت کے الاؤ نے اب اتنی شدت اختیار کر لی ہے کہ خبر بھلے ہی جھوٹ ہو اس پر بھی بھیڑ یکجا ہو جاتی ہے اور اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ دادری کے محمد اخلاق سے لے کر آسام کے حالیہ واقعات تک بیف کے نام پر مسلمانوں کا خون حلال کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا قانون تسلیم ہی نہیں عملاً نافذ کیا جا رہا ہے۔ کورٹ کے ڈائریکشن کے بعد بھی حکومت "بیف کے پجاریوں" سے مسلمانوں کی جان کا تحفظ نہیں کر سکتی تو خود مسلمانوں کو اپنے جان و مال کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ بزدلی کی موت مرنا جرم ہے، مزاحمت کرنا عین نیکی ہے، مزاحمت کرتے ہوئے جان چلی جائے تو شہادت کی موت ہے،  تحفّظ خود اختیاری کسی بھی انسانی دنیا کے قانون کا حصہ ہی نہیں بلکہ  عین قانون ہے، شریعت جس کی اجازت دیتی ھے، انسانیت جسے مانتی ہے، مصیبت میں مزاحمت کرنا اور اپنے بھائی کی مدد کرنا، ظلم کے خلاف کھڑے ہونا اور ظالم کا ہاتھ پکڑنا زندگی کی علامت ہے۔

تحریر:
ضیاء الدین صدیقی ، اورنگ آباد

#MillatAwareness #WahdatVision #MobLynching #WV05

લોકસભા ચૂંટણી ની ગરમાં ગરમી માં તોહિદ ને માનવા વાળાઓ એ ભૂલી જાય છે કી તેમનો પોતાનો પણ એક"દ્રષ્ટિકોણ "છે  ( ઈમાન),તેમનું એક ચાર...


લોકસભા ચૂંટણી ની ગરમાં ગરમી માં તોહિદ ને માનવા વાળાઓ એ ભૂલી જાય છે કી તેમનો પોતાનો પણ એક"દ્રષ્ટિકોણ "છે  ( ઈમાન),તેમનું એક ચારિત્ર્ય (પર્સનાલિટી ) અને કિરદાર છે અને ન્યાય અને ઇન્સાફ ને કાયમ કરવાની જવાબદારી સામૂહિક રીતે આપણી છે - "ચાલો તમે તે તરફ હવા હોય જે તરફ" મુહાવરા ની માફક આપણે અને આપણી નસ્લ બીજાની પૂછં પકડી ને ઉમ્મીદ લગાવી ને બેસી છે કે આપણા પ્રસ્નો નું નિરાકરણ થઈ જશે-  આઝાદી થી લઈને અત્યાર સુધી આજ પ્રેક્ટીસ આપણે કરી રહ્યા છીએ અને લગાતાર આપણે પાછળ જઈ રહ્યા છીએ'  એક વખત પણ એ નથી વિચાર્યું કે જેવી રીતે આપણી"નમાઝ ની વ્યવસ્થા" છે "ઝકાત ની વ્યવસ્થા" છે" વેપાર ની વ્યવસ્થા"છે સમાજ ની વ્યવસ્થા" છે"અખલાકિયાત ની વ્યવસ્થા" છે " શિક્ષણ ની વ્યવસ્થા" છે  એવી જ રીતે એક "રાજકીય વ્યવસ્થા" પણ છે જેને આપણે "ઈસ્લામી ખિલાફત ની વ્યવસ્થા" કહિયે છીએ, તેની માટે જાણકારી મેળવવી, વિચારવું, તેને કાયમ કરવાની કોશિસ કરવી તે ખરેખર સવાબ છે,  પરંતુ આપણી "એક બીજાના રંગ મા રંગાઈ જવાની" આદતે આપણી આ વ્યવસ્થા ને પાછળ ધકેલી દે છે - લોકો ઈસ્લામી પરિભાષા નો ઉપયોગ મનફાવે તે રીતે જેની કોઈ હેસિયત નથી તેવી વસ્તુઓ માટે કરે છે, શહીદ ની પરિભાષા નો કઈ કઈ જગ્યાએ ઉપયોગ થઈ રહ્યો છે, મગફિરત અને જન્નત ની દુવાઓ કોની માટે મંગાઈ રહી છે,વોટ આપી રહ્યા છો તો આપતા રહો, ફર્જ, વાજીબ, નેઅમત, અમાનત, અને શહાદત ની પરિભાષા ને ખુદા ના વાસ્તે ગંદી ન કરીએ-
જે લોગો ભારત ની હુકુમત ને ઈસ્લામી નિઝામે હુકુમત સમજે છે એમની માટે વોટ આપવો અમાનત, શહાદત, વાજીબ અને ફર્જ્ હોય શકે છે, પરંતુ શું આ નિઝામે હક્ છે ? જેની માટે આ અગત્યની પરિભાષા ની  બેઇજ્જતી ન કરવી જોઈએ,આપણી, ઈસ્લામી શરિયત ભાગ્યે જ તેની પરવાનગી આપતી હશે -

ઝિયાઉદ્દીનસિદ્દીકી
સેક્રેટરી જનરલ
વેહદત એ ઈસ્લામી હિંદ

#MillatAwareness #WahdatVision #WV_05