Believes in this Islam and the cornerstone of all its efforts is to attain the pleasure of Allah and succeed in the hereafter. Sincerity in all the acts viz. purification of self, reforming the society, establishing social justice etc. is the only prerequisite for their acceptance in the eyes of Allah.

جلال  بادشاہی  ہو  کہ  جمہوری  تماشا  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی  مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘ہونے کا شرف...

اسلامی مسلمان اور جمہوری مسلمان کا فرق


جلال  بادشاہی  ہو  کہ  جمہوری  تماشا 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘ہونے کا شرف حاصل ہے ،ہم میں سے کسی نے آج تک اس بات پر غور نہیں کیا کہ صاحب ’’نگارش آزاد ‘‘مولانا ابوالکلام آزاد کو ’امام الہند ‘کیوں کہا جاتا ہے؟ جو کہ سلطنت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد بھی امامت اور جمعیت کے تصور سے اسلام کو دور کیا گیا اور ملت اسلامیہ کو بے امام و بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ،ہماری امامت ‘جمعیت سے پرے ہو کر مسجد کی چہار دیواری میں قید ہو کر رہ گئی اور امامت اور جمعیت ہماری آنکھوں اور شعور سے تحلیل ہو کر رہ گئی جس کی وجہ سے علامہ اقبال کو کہنا پڑا     ؎
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے  سرور
ایسی نماز  سے گزر  ایسے امام  سے گزر
’امام الہند ‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے سلطنت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اس ملک کو آزادی بخشنے کی تحریک چلائی اور ’’تحریک خلافت ‘‘ علم تھام لیا لیکن ترکی کے خاتمے کے سبب انہیں لامحالہ ’’جمہوری نظام ‘‘کا جھنڈا ہاتھ میں تھامنا پڑا، جمہوری نظام اور اسلام کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا کہ ’’خداوند برتر ! مجھے معاف فرما میں ملت اسلامیہ کے کشت و خون کے دریا برداشت نہ کر سکا اور میرے قدموں میں لرزا طاری ہوا اس لیے میں اس جمہوری نظام میں مسلمانوں کے لئے اپنے ایمان و اسلام کے تحفظ کی غرض سے ایک ایسا لائحہ عمل پیش کر رہا ہوں جس میں مسلمانوں کے حیثیت مسلمانی باقی رہے اور اسی دوران میں وہ اپنی امامت اور جمعیت قائم کریں اور دستور ہند کے دائرے میں اپنے سیاہ و سفید کے مالک خود بنیں  اور جونہی جمعیت اس قدر طاقت حاصل کر لے کہ ’’اسلامی نظام حیات ‘‘قائم کرنے کے روشن امکانات نظر آئے تو وہ ’’خروج ‘‘کر لیں۔  اسلامی نظام حیات کے قیام تک اس ملک کا مسلمان اسلامی مسلمان نہیں ہو گا بلکہ جمہوری مسلمان رہے گا حتیٰ کہ خروج کے بعد ہی وہ اسلامی مسلمان ہوگا ، یہ فرق ہے اسلام میں مسلمان اور جمہوری مسلمان کے درمیان !!!
لہذا ابوالکلام آزاد کے ’’کاروان زندگی ‘‘کو جمہوری علماء اور مسلمانوں نے یہیں پر روک کر رکھ دیا اور امامت وجمعیت کو مسجد کی چہاردیواری میں قید کر دیا ۔آج سیاسی پردۂ مجاز میں اسلام کی تصویر اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلم پرسنل لاء اور بابری مسجد کے تحفظ کے نام پر بہت کم ہی سہی مگر آواز ضرور اٹھتی ہے تو دوسری جانب آواز اٹھانے والے جمہوری اصولوں کے تحت اسلامی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر قائدین کے مجسموں پر خراج تحسین کے غرض سے پھولوں کا ہار بھی چڑھاتے ہیں ،ٹکٹ کے حصول کی غرض سے نوٹ بھی گنتےہے ،جمہوری نظام میں جاری کرپشن اور رشوت خوری سے پرہیز بھی نہیں ہوتا ہے ،جمہوری سیاست کی تمام غلامانہ خرابی نظر آتی ہے ،ان میں سیاسی مفاد اس قدر غالب آگیا ہے کہ مذہبی حقوق و تحفظ کے نام پر پورے ملک کو یرغمال بنایا جاتا ہے اور اقتدار کے مزے لوٹے جاتے ہیں کہ فرقہ پرست پارٹیوں کے لیڈر بھی شرمسار ہو جائے ۔
لہذا اب سمجھ میں آئی وجہ کے ’امام الہند ‘مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’کاروان زندگی ‘‘کو یہیں پر کیوں روک دیا گیا اور ان کا تذکرہ بحیثیت ’امام الہند ‘کیوں نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ سازش اس بات کی ہے کہ جمہوری مسلمان اور اسلامی مسلمان کے درمیان صراط مستقیم کا خط ہٹا کر ایک خط کھینچا گیا تاکہ اس ملک کے مسلمانوں کو اسلامی مسلمان بننے ہی نہ دیا جائے اور امت کو مسجد کی چہار دیواری سے باہر نہ آنے دیا جائے اور اپنے سیاسی تسکین حاصل کر لی جائے 

شہاب مرزا (اورنگ آباد)
+91 9595 024 421

#MillatAwareness #WahdatVision #MobLynching #WV07

0 comments: