رمضان المبارک کی آمد ہی سے مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ لوگ مسجد سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر پنج وقتہ نمازوںکے علاوہ تراویح اور جمعہ میں زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بڑی تعداد میں مسجد آتے ہیں۔
ہماری مسجدوں میں بچو ں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بچے فطرتاً شریر، چلبلے اور باتونی ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا شعور نہیںہوتا کہ کس وقت کیا بات کہی جائے یا کس طرح کا رویہ اپنایا جائے۔ اسی وجہ سے مسجد میں بھی ان کا شوروغل ہوتا ہے اور اس سے بڑوں کی نمازوں اور دیگر عبادات میں خلل واقع ہوتاہے۔
ہم نے اکثر مسجدوں میں کوئی ایک ایسے صاحب کو ضرور دیکھا ہوگا جو اس بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ بچوں کو خامو ش کرائیں، ڈانٹ ڈپٹ کرے اور ضرورت پڑنے پر انھیں باہر کا راستہ دکھائیں۔ ایسے صاحبو ں کو مسجد انتظامیہ کی طرف سے یہ ذمہ داری تفویض نہیں کی جاتی بلکہ یہ ذمہ داری وہ خود اپنے نازک کندھوں پر رکھ لیتے ہیں۔ اور اس کی ادائیگی میں اس طرح منہمک ہوجاتے ہیں کہ بسا اوقات ان کی نما ز بھی متاثر ہوجاتی ہے اور بچوں کو خاموش کرانے کی فکر میں ان کی خود کی آواز اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ وہ نماز میں خلل پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بچے بھی اس طرح کے کردار کا خوب لطف اٹھاتے ہیں اوربظاہر توان کے احکام کی پابندی کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ صاحب نماز میں شامل ہوتے ہیں، بچے پھر اپنی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں۔
مسلم معاشرے میں مسجد کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ وہ مرکزی مقام رکھتی ہے۔ مسجدیں مسلم معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کی نہ صرف عبادتوں کا مرکز ہے بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت اور اصلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔ محلے کے ہر مسلمان کو اپنے محلے کی مسجد سے وابستگی اختیار کرنا ضروری ے۔ ان میں بچے بھی شامل ہے۔ لیکن بچوں کے ساتھ مسجدوں میں جو سلوک ہوتا ہے وہ ان کی دینی اصلاح و تربیت میں مانع ہوتا ہے۔ بچوں میں احساس کمتری ، دینی بیزاری اور نفرت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ اور وہ مستقبل میں بے نمازی یا دین بیزار بھی بن سکتے ہیں۔ چنانچہ مسجدوں میں بچوں کے ساتھ بہتر سلوک ہونا چاہئے۔
عہد نبوی سے ہمیں اس سلسلہ میں رہنمائی ملتی ہے۔ سیرت نبی کریمؐ میں ہمیں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں بچوں کا مسجد میں موجود ہونا اور آپؐ کا ان سے اظہار محبت کرنا ثابت ہے۔
رسول کریمؐ مسجد میں حضرات حسن و حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تشریف لایا کرتے۔ ایک مرتبہ نمازِ عشاء میں آپ ﷺ مسجد میں گئے تو آپ ﷺ نے سجدہ بہت طویل کردیا۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے سر اُٹھاکر دیکھا تو بچہ رسو ل کریم ﷺ کی پشت مبارک پر بیٹھا ہوا ہے اور آپ ﷺ سجدہ ریز ہیں۔ میں دوبارہ سجدے میں چلاگیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے کہا ’’یا رسول اللہ نماز کے دوران آپ نے ایک سجدہ بہت طویل کیا تو ہم نے سمجھا شاید کوئی نیا حکم صادر ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔البتہ میرا بیٹا میرے اوپر بیٹھ گیا تھا۔ لہٰذا میں نے جلدی اٹھنا پسند نہیں کیا تاکہ وہ اپنی خوشی پوری کرے۔ (نسائی/ مسند احمد)
ابو مالک اشعریؓ مسجد نبوی میں صفوں کی ترتیب کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مَردوں کو بچوں سے آگے اور بچوں کو ان سے پیچھے کردیتے اور عورتوں کو بچوں کی صف کے پیچھے کرتے۔ یعنی مسجد نبوی میں بچوں کے لیے خاص توجہ دی جاتی اور ان کے لیے جگہ متعین کی جاتی۔
حضرت عبد اللہ بن بریدہؓ نے اپنے باپ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت حسنؓ و حسینؓ آگئے ۔ دونوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی اور لڑکھڑاکر گررہے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ منبر سے اتر آئے اور دونوں کو اٹھاکر اپنے سامنے بٹھالیا اور فرمانے لگے۔:
’’صدق اللہ اَنَّمَا اموالکم و اولادکُم فِتنۃ۔‘‘( اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارا مال و دولت اور تمہاری اولاد فتنہ ہے)
پھر فرمایا کہ میں نے دونوں بچوں کو گرتے ہوئے دیکھا تو بے ساختہ اپنی بات منقطع کرکے انھیں اُٹھالیا۔‘‘ (ترمذی)
حضرت ابو قتادہؓ انصاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لوگوں کو نماز کی امامت کراتے ہوئے امامہ بنت زینبؓ (آپؐ کی نواسی) کو اٹھالیا کرتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو اسے بٹھادیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اسے اٹھالیتے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
مسلمان بچے ملت اسلامیہ کا مستقبل ہیں۔ ان کی بہترین تعلیم و تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ بچوں کے لیے جس طرح گھر اور اسکول تربیت گاہ ہیں، اسی طرح مسجد بھی بچوں کے لیے ایک بہترین تربیت گاہ ہے۔ چنانچہ مسجدوں کو بچوں کی تربیت گاہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مسجد میں بچوں کے لیے الگ انتظامات کیے جانے چاہئے جس میں انھیں مسجد کا احترام، نماز و دیگر عباتیں اور نظم و ضبط سکھایا جاسکے۔
٭ مسجد انتظامیہ کی طرف سے کسی ایسی شخص کو جو بچوں سے خوش طبعی اور محبت کا برتاؤ کرسکتا ہو، ان کی ذمہ داری دی جانی چاہئے۔ وہ شخص انھیں شوروغل سے منع کریں، ساتھ ہی ساتھ انھیں پیار و محبت سے نظم و ضبط سکھائے اور انھیں مسجد کے تقدس او رنماز کی اہمیت سے بھی آگاہ کرے۔
٭ بچوں میں نمازوں کا اور دیگر عبادتوں کے شوق جگانے کے لیے مختلف مقابلے بھی رکھے جائیں اور چھوٹےچھوٹے انعامات تقسیم کیے جائیں۔
٭ محلے کی مسجد میں بچوں کے لیے ہفتہ وار اجتماعات کا انعقاد کیاجائے جس میں انھیں قرأت، حمد ونعت ،
مختلف موضوعات پر تقاریر کروائی جائے۔ انھیں سیرت رسولؐ اور تاریخ اسلام سے آگاہ کیا جائے اور
کچھ مٹھائی یا ٹافیاں تقسیم کی جائے۔
ترکی کی مسجدوں میں یہ لکھا ہوا دیکھاگیا ہے کہ ’’جب تک مسجدوں میں پیچھے بچوں کا شوروغل سنائی دیتا رہے گا اس وقت تک اسلام کا مستقبل محفوظ ہے۔‘‘ترکی میں اور بہت سے عرب ممالک میں مسجدوں سے لگ کر بچوں کے لیے پارک، پلے زون، لائبریری اور ایکٹیوٹی زون بنایا جاتا ہے تاکہ بچے مسجد میں آنے پر کوئی تنگی محسوس نہ کرے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب بچے مسجد میں آتے ہیں تو انھیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگادیا جاتا ہے اور بعد میں انھیں لوگوں کو نمازی بنانے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ یاد رکھئے، بچے ہماری نئی نسل اور آئندہ کے رہنما اور دین کے شیدائی ہیں۔ انھیں اس طرح ضائع نہ ہونے دیں۔ مسجد میں آنے والے بچوں کے ساتھ ہمارے رویہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر : ڈاکٹر محمد ابرار عارف
MillatAwareness #WahdatVision #Masjid #OurKids #Ramadan #WVPost20
Follow Us
Were this world an endless plain, and by sailing eastward we could for ever reach new distances